Orhan

Add To collaction

وحشتِ دل

وحشتِ دل از کنول اکرم قسط نمبر24

رات دو بجے کا وقت تھا ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ کھڑکیوں کے پار ہواؤں کی سرسراہٹ سُنائی دے رہی تھی۔ گہری تاریکی نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ شاہ میر دو بار جاگا تھا جسے درید نے خود نرس کا دیا ہوا لیکویڈ چمچ کی مدد سے پلایا تھا۔ اور پیتے ہی کُچھ دیر بعد وہ پُرسکون سا پھر سو گیا تھا۔ درید شاہ میر کو بے بی کاٹ میں لٹا کر خود اب صوفے پہ نیم دراز تھا۔ اچانک ساوی کی سانس اکھڑنے لگی اور وہ اِدھر اُدھر ہاتھ پیر مارنے لگی۔ درید اُس کی حالت دیکھتا ہڑبڑی میں باہر کی طرف بھاگا اور اگلے دو منٹ میں ڈاکٹر اور نرس کے ساتھ وہ ساوی کے پاس موجود تھا۔ وہ ایک طرف کھڑا مضطرب سا ڈاکٹر اور نرس کی کاروائی دیکھ رہا تھا وہ خاتون جو ساوی کے ساتھ تھی اُسے درید گھر بھیج چُکا تھا کہ دن میں آجائیے گا۔ نرس ساوی کو انجکشن لگا رہی تھی۔ اور ڈاکٹر اُس کا بی پی چیک کر رہا تھا۔ پندرہ منٹ بعد ڈاکٹر گہرا سانس لیتا درید کی طرف بڑھا۔ "یہ اب خطرے سے باہر ہیں ہوش بھی آجائے گا آپ فکر مت کریں۔ اِن کی ہارٹ بیٹ نارمل ہے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔" ڈاکٹر اُس کا کندھا تھپتھپاتے باہر نکل گیا نرس نے بھی ڈاکٹر کی پیروی کی جب کہ درید سکون کا سانس لیتا ساوی کے پاس چیئر گھسیٹ کر ساوی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتا بیٹھ گیا۔ اب اُس کی رات آنکھوں میں کٹنے والی تھی۔


وہ جس وقت گھر آیا شام کے چھ بج رہے تھے۔ اندر داخل ہو کے گیٹ لاک کیا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھا جہاں اُس کی جانِ عزیز اُس کاانتظار کر رہی تھی۔ جانتا تھا وہ اُس سے ناراض ہو گی۔ کیونکہ وہ کل گھر نہیں آیا تھا اُسے آفس کے کسی کام سے شہر سے باہر جانا پڑا تھا۔ وہ اندر داخل ہوا تو وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے نیم دراز تھی۔ "اہمم" وہ گلا کھنکھارتا اُسے اپنی طرف متوجہ کرنے لگا۔ "شااان " وہ تیزی سے بیڈ سے اُترتی اُس کی طرف بھاگنے کے سے انداز میں لپکی۔ "کیا کر رہی یار آرام سے۔" وہ تیزی سے آگے بڑھتا اُسے تھامتا ہوا بولا۔ "ہاہاہا سوری۔ آپ کو پتہ ہے آج میں بہہہہہتتت خوش ہوں" وہ اُس کے گلے میں باہیں ڈالے اُس کے دونوں پاوں پہ اپنے پاوں رکھے اُس کی تھوڑی تک آتی بولی۔ "وہ تو مُجھے بھی دِکھ رہا ہے کہ میری جانم بہت خوش ہے آج۔ کہاں تو وہ میرے گھر نہ آنے پر ناراض ہوتی اور کہاں وہ مُجھ پہ پیار جتا رہی ہے۔" اُس کا اشارہ اپنے گلے کے گِرد اُس کی باہوں کے حصار کی طرف تھا۔ وہ کبھی خود سے پہل نہیں کرتی تھی وہ آج بھی اوّل روز کی طرح شایان سے شرماتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ شایان کو سمضھ آگیا تھا کہ وہ کسی بات پر خوش ہے اِسی لیے اُس پہ اتنی کرم نوازی کی جا رہی ہے۔ "آپ سنیں گے نا تو آپ بھی بہت خوش ہو جائیں گے" وہ چہکتی ہوئی بولی۔ اچھا تو پھر جلدی سے بتاؤ کیا بات ہے؟ وہ اُس کی طرف محبت پاش نظروں سے دیکھتا پوچھ رہا تھا۔ "درید بھائی کا فون آیا تھا۔" اُس نے سسپنس کری ایٹ کرنا چاہا۔ "تو اِس میں اِتنی خوش ہونے والی کیا بات ہے اُس کا فون تو تُمہیں ہر روز ہی آتا ہے۔" وہ اُس کی باہیں اپنی گردن سے نکالتا ہوا خفگی سے بولا۔ "اوہو آپ پوری بات تو سُنیں" وہ جھنجھلائی۔ "اچھا سناو سُن رہا ہوں میں۔" وہ گہرا سانس لیتا بیڈ پر بیٹھا۔ "بھائی کو ساوی مل گئی ہے اور وہ بہت جلد اُسے گھر بھی لے آئیں گے"۔ اُس نے پُرجوش لہجے میں دھماکا کیا۔ کیا سچ ؟ میری گُڑیا میری نور مل گئی کہاں ہے وہ؟ ٹھیک تو ہے نا؟ وہ خوشی سے چیختا اُس کے پاس پہنچ کر اُسے گود میں اُٹھاتا سوال پہ سوال پوچھنے لگا۔ "شااان پلیز نیچے اُتاریں مجھے چکر آرہے ہیں" وہ سر پر ہاتھ رکھتی بولی۔ اوہ سوری سوری تُم ٹھیک ہو مُجھے خوشی میں یاد ہی نہیں رہا۔ میرا بے بی آپ ٹھیک ہو بابا نے آپ کو زیادہ تو نہیں گُھمایا؟ وہ افرحہ سے کہتا نیچے جھک کر اپنے بے بی سے پوچھنے لگا کہ افرحہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ "وہ ٹھیک ہے پریشان مت ہوں آپ" افرحہ نے اُسے تسلی دی۔ وہ اپنی اولاد کے بارے میں بہت پوزیسسو تھا حالانکہ ابھی تو اُس کی اولاد دُنیا میں آئی بھی نہیں تھی۔ " خدا کا شُکر ہے۔ کب آرہی ہے ساوی گھر ہمیں گھر جانا چاہیے میں کپڑے نکالتا ہوں۔" وہ خدا کا شُکر ادا کرتا کہنے لگا۔ "بھائی نے کہا تھا کہ ایک دو دن لگ جائیں گے آپ پریشان مت ہوں درید بھائی فون کر دیں گے پھر چلیں گے۔" وہ اُس کے چہرے کو دیکھتی بولی۔ "ہمم ٹھیک ہے میں فریش ہوجاتا ہوں پھر ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔" وہ اُس کا ماتھا چومتا الماری سے کپڑے لیتا باتھ روم چلا گیا۔ اور افرحہ کھانا گرم کرنے کچن میں چلی آئی۔


صبح اُس کی آنکھ ساوی کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ سے کُھلی۔ اُسے ہوش آرہا تھا وہ اُس پہ جُھکا اُسے آوازیں دینے لگا۔ ساوی نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں تو نظر سامنے کھڑے مرد پر پڑی۔ وہ اُسے پہچاننے کی کوشش کرنے لگی مگر اُسے کُچھ یاد نہ آیا۔ وہ ایک جھٹکے سے اُٹھ کر بیٹھی کہ ٹانکوں پہ کھنچاو پڑنے سے تکلیف کا احساس ہوتے ہی آہ کر کے رہ گئی۔ کیا ہوا تُم ٹھیک ہو ؟ درید پریشانی سے پوچھنے لگا۔ کک کون ہیں آپ ؟ میں کہاں ہوں؟ اور مُجھے کیا ہوا ہے ؟ تکلیف کو دباتی وہ پے در پے سوال کرنے لگی۔ جبکہ اُس کے سوالوں پہ درید پریشانی سے اُس کا چہرہ دیکھنے لگا۔ ساوی میری گُڑیا کیسی باتیں کر رہی ہو؟ میں ہوں درید تُمہارا شوہر تمہارا دوست مجھے نہیں پہچانا ؟ ایسا کیوں بول رہی ہو؟ وہ اُس کا چہرہ دیکھتا پوچھنے لگا۔ مم میں نہیں جانتی آپ کو۔ میں یہاں کیوں ہوں مُجھے اتنی تکلیف کیوں ہو رہی ہے؟ وہ اب کی بار چیخ پڑی۔ وہ کُچھ پل اُسے دیکھتا رہا پھر بے بی کاٹ کی طرف بڑھ گیا اور شاہ میر کو اُٹھاتا اُس کے سامنے آیا۔ "کہ ہمارا بیٹا ہے جو کل ہی پیدا ہوا ہے۔ یہ بھی یاد نہیں؟ " درید نے شاہ میر کو اُس کے پاس کرتے کہا جو کہ مُسکرا رہا تھا جیسے باپ کی گود میں بہت خوش ہو۔ مم میرا بیٹا؟ شوہر ؟ مم مجھے کُچھ یاد کیوں نہیں آرہا پھر؟ وہ اپنا سر تھامتی بے بسی سے بولی۔ ریلیکس کُچھ نہیں ہوا سب ٹھیک ہے میں ڈاکٹر سے بات کرتا ہوں تُم آرام کرو" درید شاہ میر کو بے بی کاٹ میں لٹاتا باہر نکل گیا جبکہ اُس کے جانے کے بعد ساوی ہمت کرتی اُٹھی اور بیڈ کا سہارا لیتی باتھ روم جانے لگی۔ باتھ روم میں جا کر وہ آئینے کے سامنے کھڑی ہوگئی اور اپنا چہرہ چھو کر دیکھنے لگی۔ مُجھے کُچھ کیوں نہیں یاد ؟ کیا ہو رہا ہے؟ وہ اپنا چہرہ چھوتی بے بسی سے بولی۔ وہ واپس روم میں آنے لگی ابھی وہ دیوار کے سہارے چل رہی تھی کہ درید اندر داخل ہوا اُس کے ساتھ ڈاکٹر اور نرس تھی۔ گُڑیا یہ تُم کیوں اُٹھی۔ ابھی تُم ٹھیک نہیں ہو کسی چیز کی ضرورت تھی تو مُجھے کہتی میں لا دیتا چلو بیڈ پر بِیٹھو۔ درید اُس کو سہارا دیتا بیڈ تک لایا اور لٹا دیا۔ ڈاکٹر نے ساوی کا چیک اپ شروع کیا پہلے اُس کی آنکھیں چیک کیں پھر اُس سے چھوٹے چھوٹے اُس کی زندگی کے متعلق سوالات کیے کہ اُسے کُچھ یاد ہے کہ نہیں ؟ پر ساوی کا ہر جواب نہ میں تھا۔ درید اُس کے چہرے کے تاثرات سے پریشان ہو رہا تھا جو درید کو اور بے بی کاٹ میں لیٹے شاہ میر کو انجانی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نے درید کو کیبن میں آنے کا کہا اور نرس کے ہمراہ باہر چلا گیا۔ اُن کے جانے کے بعد درید ساوی کے پاس بیڈ پر بیٹھا تو وہ سمٹ سی گئی۔ درید نے اُس کی یہ حرکت اچھے سے نوٹ کی۔ "ریلیکس۔ تُمہیں کُچھ یاد نہیں تو کوئی بات نہیں آہستہ آہستہ یاد آجائے گا ڈاکٹر نے کہا ہے کہ ایسی کنڈیشن میں ایسا ہو جاتا ہے تُمہیں کُچھ یاد نہیں ہے تو تُم مجھ پر یقین بھی نہیں کرو گی نا۔ لیکن یہ دیکھو اِس میں ہماری بہت ساری پکچرز ہیں جنہیں دیکھ کے تُمہیں یقین آجائے گا۔" دُرید ساوی کو تسلی دیتا اپنا فون آن کرتا اُسے فون میں موجود اُس کی پکچرز دِکھانے لگا۔ وہ غور سے ہر تصویر کو چھو چھو کر دیکھ رہی تھی جیسے یقین کرنا چاہ رہی ہو۔ یہ کون ہے ؟ وہ ایک تصویر پہ ہاتھ رکھتی پوچھنے لگی۔ "یہ تُمہارے بابا ہیں اور ساتھ میں ماما۔ اور یہ اگلی تصویر میں تُمہارا بھائی شایان اور تُمہاری بھابھی پلس بیسٹ فرینڈ افرحہ ہے۔ اور یہ میں اور تُم ہو۔" وہ باری باری سب کی تصویروں پہ ہاتھ رکھتے اُن کے بارے میں بتانے لگا۔ یہ سب کہاں ہیں؟ اُس نے ایک اور سوال کیا۔ "یہ سب گھر پر ہیں ہم بہت جلد گھر جائیں گے تو تُم سب سے مل لینا اوکے۔" اُس نے کہتے ہوئے اُس کا ہاتھ تھامنا چاہا کہ اُس نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ "سوری وہ بس ایسے ہی عادت ہے تو۔۔۔" اُس کے ہاتھ کھینچنے پہ وہ شرمندہ ہوا اور اُسے شرمندہ دیکھ کر ساوی کو جانے کیوں بُرا لگا۔ "نہیں وہ میں نے ایسے ہی پیچھے کیا" وہ اُس کی شرمندگی مٹانے کو بولی۔ "ہمم" وہ دوبارہ فون میں مگن ہوکر سب تصویریں دیکھنے لگی۔ "اس میں سب تصویریں ہیں پھر ہماری شادی کی تصویریں کیوں نہیں ہیں؟" اُس کے سوال پر وہ بوکھلا سا گیا۔ "وہ ہاں کیونکہ ہمارا نکاح بچپن میں ہوا تھا نا اِس لیے" وہ بات بناتے ہوئے بولا۔ "بچپن کا نکاح۔ تو پھر رُخصتی پہ تو تصویریں بنائی ہوں گی وہ کہاں ہیں" ہاں بنائی تھیں بہت تصویریں مگر جس فون میں "تصویریں تھیں وہ فون گُم ہو گیا تھا اِس لیے شادی کی کوئی تصویر نہیں ہے" اُس کے سوالوں پہ اُسے بروقت بہانا سوجھا تھا۔ "اچھا " وہ افسردگی سے سر ہلا گئی "اچھا تُم ریسٹ کرو پھر میں کھانے کے لیے کُچھ لاتا ہوں پھر تُمہیں میڈیسن بھی دینی ہے" وہ اُس کے پاس سے اُٹھتے ہوئے بولا "سُنیں " اُس کے اُٹھتے ہی پُکار اُٹھی۔ "سُنائیں" وہ بھی اُسی کے امداز میں دلکش مُسکراہٹ سے بولا۔ "وو وہ آ آپ بے بی کک کو مم مجھے دے دیں میں اُسے دیکھ لوں؟" وہ جھجھکتے ہوئے پوچھنے لگی۔ "اِس میں پوچھنے والی کیا بات ہے میری نورِ جان وہ آپ کا ہی ہے اور آپ کے بے بی کا نام آپ کے بے بی کے پاپا نے شاہ میر رکھا ہے" اُس کی بات پہ سرشار ہوتا وہ شاہ میر کو اُٹھائے اُس کے پاس آیا اور شاہ میر کو اُسے پکڑا دیا جس نے نرمی سے اُسے تھام لیا۔ "سُنیں" وہ ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے پلٹا کہ وہ ایک بار پھر پُکار اُٹھی۔ اور وہ اُس کی سُنیں والی صدا پہ خوشگوار مسکرہٹ سجائے ایک بار پھر اُس کے پاس آیا۔ "جی سُنائیں" وہ بھی اُسی کے انداز میں بولا۔ وو وہ میرا نام کیا ہے؟ وہ اپنا ہی نام پوچھتے ہوئے جھجکی اور دُرید کے دل میں ایک چُھبن سی ہوئی کہاں وہ لڑکی جسے اپنا نام حد سے زیادہ پسند تھا اور کہاں اب اُسے اپنا نام بھی یاد نہ تھا۔ "تُمہارا نام اساورہ نور ہے اور تُمہارے شوہر یعنی میرا نام درید احمد ہے" وہ اُس کے چہرے کی طرف دیکھتا دونوں کے نام بتانے لگا۔ "تو پھر ساوی کون ہے ؟ آپ پہلے تو مجھے ساوی کہہ رہے تھے" وہ الجھے لہجے میں پوچھ رہی تھی۔ ساوی تمہارا نک نیم ہے اور پتہ ہے تُمہارے نام کا مطلب کیا ہے؟ وہ اُس کے سوال کا جواب دیتا سوال کر گیا۔ کیا؟ اُس نے معصومیت سے پوچھا۔ "تمہارے نام کا مطلب ہے جنّت کا گہنا۔ اور تُم واقعی گہنا ہو نایاب اور انمول۔" وہ شاہ میر کے سر پہ پیار کرتا باہر نکل گیا۔ "درید" اُس کے جانے کے بعد اُس نے سرگوشی میں دُہرایا۔ پھر وہ شاہمیر کی طرف متوجہ ہوئی اور اُس کی آنکھیں دیکھ کر حیران ہوئیں جو بلکل ساوی کے جیسی تھی بڑی بڑی جبکہ نین نقش بلکل درید جیسے تھے۔ وہ اُس سے باتیں کرتی اپنا دل بہلانے لگی جبکہ دماغ لگاتار پچھلی زندگی یاد کرنےکی کوشش میں مگن تھا۔


گھر سے نکلنے کے بعد ساوی نہیں جانتی تھی کہ وہ کہاں جائے۔ درید کو سزا دینے کے اور بھی بہت سے طریقے تھے اگر وہ چاہتی تو خلع لے سکتی تھی یا پھر گھر والوں کو بتا کر اُسے سب کی نظروں میں گِرا دیتی مگر وہ جانتی تھی کہ درید اُسے کبھی نہ چھوڑتا اور گھر والے بھی جلد یا بدیر اُسے معاف کر دیتے کہ بہرحال وہ اُس کے نکاح میں تھی اُس کی جائز بیوی اگر اُن کے بیچ کوئی تعلق تھا بھی تو وہ حرام نہیں تھا۔ یہی سب سوچتے ہوئے اُس نے درید کو جدائی کی سزا دی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ درید کو اُس سے محبت نہیں عشق ہے۔ اُس نے جو بھی کیا انجانے میں کیا۔ غلطی اگر درید کی تھی تو اُس کی بھی تھی۔ مگر وہ اپنی عزت نفس کا کیا کرتی جو اُس کو جھکنے سے منع کر رہی تھی۔ گھر سے نکلنے کے بعد وہ ایک این جی او میں چلی آئی تھی۔ جو بے سہارا عورتوں کی مدد کرتا تھا۔ ایک مہینہ ہو چکا تھا اُسے وہاں رہتے۔ جب ایک دن ایک عورت وہاں آئی تھی اُس عورت کا بھی اپنا این جی او تھا مگر اُسے ایک ایسی لڑکی چاہیے تھی جو اُس کے بیٹے کو سنبھال سکے اور وہ آرام سے اپنے این جی او کا کام کر سکے اور یوں ساوی نے اپنا نام پیش کیا تھا کہ اس طرح اگر درید اُسے ڈھونڈ بھی رہا ہو تو وہ اُسے نہ ملے۔ ملیحہ صبیگم ایک اچھی عورت تھیں ساوی چاہتی تو اُنہیں سب بتا سکتی تھی مگر پھر بھی اُس نے اُن سے جھوٹ بولا کہ وہ اکیلی ہے اِس دنیا میں اُس کا کوئی نہیں۔ اُسے اپنے اور اپنےہونے والے بچے کے لیے چھت چاہیے تھی جو ملیحہ بیگم نے اُسے فراہم کر دی تھی۔ وہ اپنا بہت خیال رکھتی تھی اپنے آنے والے بچے کے لیے بہت سارے پلان بناتی۔ خود سے اُسے دُنیا جہاں کی خوشیاں دینے کے عہد کرتی۔ پراپر روٹین چیک اپ کروانے بھی جاتی۔ اور اسی طرح وہ ایک بار چیک اپ کروانے گئی تھی جب اُسے درید نظر آیا تھا۔ وہ پریشان ہوئی تھی کہ وہ اُسے دیکھ نہ لے۔ وہ اُس کی نظروں سے بچ کر پارکنگ تک آگئی تھی ملیحہ بیگم اُس کی ہڑبڑی پہ پریشان ہوئیں تھیں مگر اُس نے طبیعت خرابی کا بہانا بناتے انہیں ٹال دیا تھا۔ اُسے لگا تھا کہ وہ درید کی نظروں سے بچ گئی ہے مگر وہ انجان تھی کہ درید اُسے دیکھ چکا تھا۔ آٹھ مہینے اُس نے گھر والوں کے بغیر گُزارے تھے اُسے اُن کی بے حد یاد آتی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اِس کڑے وقت میں وہ اُس کے ساتھ ہوں جب اُنہیں سب سے زیادہ اپنوں کی ضرورت تھی۔ اِس گُزرے وقت میں کوئی ایسا لمحہ نہ تھا جب اُس نے ماں باپ بھائی جان سے پیاری دوست اور درید کو یاد نہ کیا ہو۔ ہاں درید وہ درید کو یاد کرتی تھی بہت یاد کرتی تھی۔ اُسے سزا دینے کے چکر میں اُس کی جدائی ساوی کے دِل میں درید کی محبت گہری کر گئی تھی۔ اُس نے سوچا تھا کہ وہ اُسے معاف کر دے گی۔ اُس کا بچہ بغیر باپ کے نہیں پلے گا۔ اور پھر جس دن اُس کا بچہ اِس دُنیا میں آنے والا تھا اُس نے اپنوں کو پاس بُلانے کے لیے گھر فون کیا تھا مگر آگے سے ملنے والی خبر نے اُس کے ہوش اڑائے تھے اور پھر اُسے نروس بریک ڈاون ہوا تھا اگر پاس کھڑیں ملیحہ بیگم اُسے نہ تھامتیں تو شاید وہ بُری طرح نیچے گرتی اور اپنا قیمتی نقصان کروا بیٹھتی۔

   0
0 Comments